Sunday, 15 November 2015

مجسم نثر سی ہعوں

جامِ وصل کے ہر گھونٹ کو ترسی ہوں
میں دھوپ میِں کھڑے تنہا شجر سی ہوں۔
من کے غُنچہِِ حزن کی سیرابی کو
ہر شبِ فرقت میں قطرہ قطرہ برسی ہوں۔
وہ پیہم جبر کا قائل، مَیں مسلسل صبر پہ مائل
مزاج میں بھی اپنے ہم سفر سی ہوں۔
بہاﺅں آنسو تو بھِگو دوں دھرتی کا دامن بھی
ساون کے سیاہ بادل کی چشم تر سی ہوں۔
آزمائشِ اُلفت ےہیں پر بس نہیں
دُعاﺅں میں بھی اپنی بے اثر سی ہوں۔
تمہی سے تکمیل مرے نصابِ عشق کی
تُو جذبوں کی شاعری، مَیں مُجسّم نثر سی ہوں۔

خیال رکھنا



خیال رکھنا اپنا یہ سوچ کہ...

کسی نےضروری کام سونپا ہوا ہے

حناء

محبت



محبت میں کیا کیا ہارنا پڑتا ہے۔
محبت قربانی کیوں مانگتی ہے۔
مجھے محبت سے محبت ہے
کیا محبت کو مجھ سے محبت ہے؟
میں محبت کرتی ہوں
میں محبت ہی سوچتی ہوں
جو "م"سے معصوم ہوتی ہے
جو "ح" سے حاکم اور محکوم بھی ہوتی ہے۔
جو "ب" سے بھرم میں رہتی ہے
جو "ت" سے تڑپ بھی رکھتی ہے۔
مجھے ایسی محبت ہے۔۔۔
ایسی محبت ۔۔
جس میں میری انا ساتھ ہو
مجھے وہی محبت چاہیے۔
مجھے انا کی قربانی دینی ہے؟
تو مجھے انا کی قربانی بھی چاہیے۔
مجھے ایسی محبت چاہیے۔۔۔
مجھے محبت سی محبت چاہیے
مجھے محبت سے محبت چاہیے
مجھے ایسی محبت دو گے؟
مجھے ایسی محبت چاہیے ۔


~Hina~

Friday, 13 November 2015

تم عجب یاد آئے

میری نیندجو ٹوٹی ، تم عجب یاد آئے۔
ترا چہرہ، تری آنکھیں، ترے لب یاد آئے۔

برسہا برس ہی نذرِ فراق ہوئے
ایک ایک کر کے آج وہ سب یاد آئے۔

متاعِ جاں ہے تجھ سے شناسائی لیکن
 رہ رہ کے نارسائی " کے سبب یاد آئے۔

برکھا سے بھی ہے اک رشتہ پرانا اپنا
مری آنکھوں میں اتری، تم جب یاد آئے۔

ہجر کی اداس رتوں نے حنا پر
جو بھی ڈھائے ہیں غضب، سب یاد آئے۔

موسم گلابوں والے

یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے 
ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے 

اب ماہ و سال کی مہلت نہیں ملنے والی 
آ چکے اب تو شب و روز عذابوں والے 

اب تو سب دشنہ و خنجر کی زباں بولتے ہیں 
اب کہاں لوگ محبت کے نصابوں والے 

جو دلوں پر ہی کبھی نقب زنی کرتے تھے 
اب گھروں تک چلے آئے وہ نقابوں والے 

زندہ رہنے کی تمنا ہو تو ہو جاتے ہیں 
فاختاﺅں کے بھی کردار عقابوں والے 

نہ مرے زخم کھلے ہیں نہ ترا رنگِ حنا 
اب کے موسم ہی نہیں آئے گلابوں والے