Friday, 13 November 2015

تم عجب یاد آئے

میری نیندجو ٹوٹی ، تم عجب یاد آئے۔
ترا چہرہ، تری آنکھیں، ترے لب یاد آئے۔

برسہا برس ہی نذرِ فراق ہوئے
ایک ایک کر کے آج وہ سب یاد آئے۔

متاعِ جاں ہے تجھ سے شناسائی لیکن
 رہ رہ کے نارسائی " کے سبب یاد آئے۔

برکھا سے بھی ہے اک رشتہ پرانا اپنا
مری آنکھوں میں اتری، تم جب یاد آئے۔

ہجر کی اداس رتوں نے حنا پر
جو بھی ڈھائے ہیں غضب، سب یاد آئے۔

No comments:

Post a Comment